پاکستان پریس فاؤنڈیشن مصری خان اورکزئی کو یاد کررہا ہے جنہوں نے اپنی زندگی صحافت کے لیے وقف کردی
گیارہ سال قبل 14 ستمبر 2010 کو سینئر صحافی ، ہنگو یونین آف جرنلسٹ کے صدر اور روزنامہ اوصاف اور روزنامہ مشرق ، سمیت کئی اخبارات کے نمائندے، مصری خان اورکزئی ، کو تین نامعلوم افراد نے ہنگو پریس کلب خیبر پختونخوا کے سامنے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس وقت اورکزئی کی عمر 48 برس تھی
صبح سویرے جب اورکزئی پریس کلب میں داخل ہو رہے تھے اس وقت تین نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں اورکزئی شدید زخمی ہوگئے،ا ن کو متعدد گولیاں لگیں جن میں سے ایک گولی ان کے دل میں پیوست ہوئی، انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہنگو لے جایا گیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔
ایک مجرمانہ شکایت (ایف آئی آر) نامعلوم مسلح افراد کے خلاف درج کی گئی۔ ابتدائی رپورٹس درج ہونے تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم بعد ازاں تحریک طالبان نے واقعے کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا۔
جولائی 2021 میں، سٹی پولیس اسٹیشن کے ہیڈ محرر شفیع اللہ نے پی پی ایف کو بتایا کہ مصری خان اورکزئی کے بیٹے عمر فاروق نے واقعے کی تفصیلات فراہم کیں اور قتل کے خلاف ایف آئی آر( 590 /2010( سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کروائی تھی۔ پولیس نے اسی وقت سے تفتیش شروع کردی تھی اور اسی دن چار ملزمان، دو بھائی فدا محمد اور حسین محمد ولد علی اور فائق اور گل جان ولد سکندر رشید، کو گرفتار کر لیا تھا۔ تمام ملزمان کو ایڈیشنل سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا تھا مگر عدالت نے ملزمان کو رہا کر دیا اور کیس بند کرنے کا حکم دیا۔
اورکزئی کے بیٹے اور اس وقت ہنگو پریس کلب کے صدر زاہد نے پی پی ایف کو بتایا کہ اورکزئی کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے پشاور میں صحافی سے رابطہ کیا اور کہا ، “ہم نے انہیں اس لیے مارا کیونکہ انہوں نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا”۔ زاہد نے مزید کہا کہ اس سے قبل اورکزئی کے دفتر کو بھی ان کی اسٹوریز کی وجہ سے آگ لگا ئی گئی تھی۔ 2009 میں طالبان نے انہیں اغوا کر لیا تھا اور ان کے گھر پر بم بھی لگا یاتھا ۔ پولیس نے ایک نشے کے عادی فرد کو گرفتار کیا اور ہم پر دباؤ ڈالا کہ ہم اسے بطور ملزم قبول کرلیں۔
زاہد نے مزید کہا کہ اورکزئی نے اپنی زندگی میں پولیس کو متعدد دھمکیوں کے بارے میں رپورٹ کی تھی اور وہ فون نمبر بھی فراہم کیے جن سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوتے تھے، جن کا پتہ لگانے کے لیے انہیں پولیس سے کال بھی موصول ہوئی لیکن کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
اورکزئی کے بیٹے عمر فاروق نے بھی بتایا کہ ان کے والد کو کافی عرصے سے فون کالز کے ذریعے دھمکیاں مل رہی تھیں اور ان کے دفتر پر تین بار حملہ کیا گیا تھا۔
اورکزئی “مصری خان ایجنسی” کے نام سے ایک نیوز ایجنسی چلا رہے تھے جو 2010 میں، ان کے صوبے سے خاص طور پر متنازعہ علاقوں کی خبریں 9 بڑے خبررساں اداروں بشمول ایکسپریس نیوز، روزنامہ اوصاف، روزنامہ مشرق، اور کچھ دیگر اداروں کو فراہم کر رہی تھی۔ زیادہ تر خبریں ہنگو اور کے پی کے صوبے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے متعلق تھیں ۔ ان کے تین بیٹے اب یہ نیوز ایجنسی چلا رہے ہیں۔
اورکزئی کے بیٹے زاہد نے بتایا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ میڈیا کا کوئی بھی ادارہ مقتول صحافی کے اہل خانہ کے شانہ بشانہ نہیں کھڑا ہوا اور انصاف کی طلب میں ان کی آواز نہیں بنا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اورکزئی کے دو بیٹوں کے لیے سرکاری نوکریوں اور ان کے تمام بچوں کے لیے مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ دس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اورکزئی تقریبا تین دہائیوں سے بطور صحافی کام کر رہے تھے۔ وہ علاقے کے ایک سماجی کارکن بھی تھے اور مقامی مسائل کو اجاگر کرنے میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اورکزئی کے قتل کو دہشت گردی کا گھناؤنا اور قابل نفرت عمل قرار دیا تھا۔
واقعے کے وقت ہنگو یونین آف جرنلسٹس ، خیبر یونین آف جرنلسٹس ، ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس نے اورکزئی کے قتل کی مذمت کی ، اور حکام سے مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، انہوں نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اور حکومت کے کوئی کارروائی نہ کرنے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی بھی دی تھی ۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے اورکزئی کے قتل کی شدید مذمت کی تھی، پی ایف یو جے نے ایک بیان میں مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت مقتول کے خاندان کو جس میں اس کی بیوہ ، چھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں، معاوضہ ادا کرے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ متنازعہ علاقوں میں میڈیا کارکنوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں، اور میڈیا ورکرز کو قتل کرنا آج کا معمول بن گیا ہے۔