پی پی ایف فرنٹ لائن پر زندگی کی بازی ہار جانے والے میڈیا ورکرز اعجاز رئیسانی اور محمد سرور کو ان کی برسی پر یاد کررہا ہے | Pakistan Press Foundation (PPF)

Pakistan Press Foundation

پی پی ایف فرنٹ لائن پر زندگی کی بازی ہار جانے والے میڈیا ورکرز اعجاز رئیسانی اور محمد سرور کو ان کی برسی پر یاد کررہا ہے

ستمبر3 2010، کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک جلوس پر خودکش حملے میں سما ٹی وی کے کیمرہ آپریٹر اعجاز رئیسانی اور آج نیوز کے ڈرائیور محمد سرور ہلاک ہو گئے تھے، اس دھماکے میں کم از کم 64 افراد ہلاک اور 160 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس جلوس کا اہتمام شیعہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس کے موقع پر کیا تھا۔

اس بدقسمت دن صحافی، احتجاجی مارچ کی کوریج کررہے تھے جب خودکش بم دھماکہ ہوا جس کے بعد جلوس میں شریک افراد نے فائرنگ شروع کردی جس سے افراتفری اور خوف و ہراس پھیل گیا۔ لوگ گولیوں سے بچنے کے لئے بھاگے اور زمین پر لیٹ گئے۔ گولیاں چلنے سے صحافیوں سمیت متعدد افراد زخمی ہو ئے تھے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے میڈیا سے منسلک ان دو لوگوں کی زندگیوں کو یاد کیا اور فرنٹ لائنز پر ان کے کردار کو تسلیم کیا جنہوں نے اس واقعے میں اپنی جانیں گنوائیں ۔ اس واقعے میں متعدد میڈیا کارکنان بھی زخمی ہوئے تھے، اس طرح فرنٹ لائن پر کام کرنے والے میڈیا ورکرز کو ضروری حفاظتی سازوسامان فراہم کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

جان سے ہاتھ دھونے والے دو میڈیا کارکنوں میں سے سرور گولیوں کی زد میں آکر موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ رئیسانی دھماکے میں زخمی ہو ئے، انہیں دو گولیاں لگیں اور تین دن بعد 6 ستمبر کو ان کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔

 پی پی ایف سے بات کرتے ہوئے سرور کے بھائی انور نے کہا کہ سرور ان کے خاندان کا واحد کفیل تھا کیونکہ انور اس وقت تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ انور نے بتایا کہ آج نیوز نے اس وقت انہیں بہت مدد فراہم کی تھی تاہم وہ تحقیقاتی عمل اور حکومت کی حمایت سے ناخوش تھے۔

آج نیوز کوئٹہ کے بیورو چیف مجیب احمد نے کہا کہ سرور کو اپنے کام سےبہت لگاؤ تھا اور وہ  بحفاظت  گاڑی چلاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سرور دھماکے کی جگہ سے دور کھڑا تھا لیکن فائرنگ کی وجہ سے اسے گولی لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا

سماء ٹی وی کوئٹہ کے بیورو چیف جلال نورزئی نے بتایا کہ واقعے میں رئیسانی جاں بحق اور ایک نامہ نگار نور الٰہی بگٹی زخمی بھی ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رئیسانی “بہت پرجوش اور محنتی” انسان تھے۔

 نورزئی کے مطابق رئیسانی اپنے خاندان کا واحد کمانے والا تھا اور ادارے نے اس کے بچوں کے اخراجات برداشت کرکے اس کے خاندان کی مدد کی ۔ ابتدائی طور پر انہیں ایک ملین روپے دیئے گئے تھے اور ادارہ رئیسانی کی تنخواہ اب بھی اس کی اہلیہ کو ادا کر رہا ہے۔

پریس کلب کے صدر خالق رند نے کہا کہ رئیسانی کے ساتھ ان کے اچھے پیشہ ورانہ تعلقات تھے جنہیں انہوں نے “پرجوش اور کم عمری میں اپنے کام کے لیے وقف” قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی موت میڈیا کمیونٹی کے لیے ایک بڑا نقصان تھا۔

 

 زخمی میڈیا ورکرز

 سماٹی وی کے ایک رپورٹر نور الٰہی بگٹی، اے آر وائی نیوز کے بیورو چیف مصطفیٰ ترین اور کیمرہ آپریٹر امین اللہ مینگل، ایکسپریس نیوز کے کیمرہ آپریٹر شاہد مختار، ایکسپریس نیوز کے رپورٹر ارشاد مستوئی، جیو نیوز کے کیمرہ آپریٹر عمران مختار اور ڈان نیوز کے کیمرہ آپریٹر فتح شاکر سمیت متعدد دیگر صحافی بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے۔

مشتعل مظاہرین نے ٹی وی چینلز آج نیوز، دنیا ٹی وی، ایکسپریس نیوز اور ڈان نیوز کی ڈائریکٹ سیٹلائٹ نیوز گیدرنگ (ڈی ایس این جی) گاڑیوں پر بھی گولیاں چلائیں۔

بگٹی نے پی پی ایف کو بتایا کہ انکا سر اور بازو زخمی ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر ان کا سی ایم ایچ میں علاج کیا گیا جس کے بعد وہ 12 دن تک سول اسپتال میں بھی زیر علاج رہے۔ بگٹی کے مطابق اس وقت نیوز آرگنائزیشن میں کوئی حفاظتی احتیاطی تدابیر یا لائف جیکٹ دستیاب نہیں تھیں جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ کیمرہ مین رئیسانی کی موت اور ان کے زخمی ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے کوئٹہ میں رپورٹنگ کے دوران بہت سے صحافی ہلاک ہو ئے۔

اب بگٹی اب تک نیوز کے بیورو چیف ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ تمام احتیاطی سامان ہر کیمرہ مین، رپورٹر اور عملے کے دیگر ارکان کے لئے دستیاب ہو۔

ایک اور زخمی میڈیا کارکن مینگل نے بتایا کہ انہیں اس واقعے میں معمولی چوٹیں آئیں اور ان کا بایاں بازو ابھی تک مکمل طور پر ٹھیک طرح سے کام نہیں کررتا۔ مینگل کا ایک دن سی ایم ایچ میں علاج کیا گیا اس کے بعد اے آر وائی نیوز کے مالکان  نے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں ان کا علاج کروایا۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد مینگل نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ وہ ایک سینئر کیمرہ مین کے طور پر اے آر وائی نیوز کوئٹہ سے منسلک ہیں اور اب مکمل حفاظتی احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

واقعے میں زخمی شاکر جو اب بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری اور 24 نیوز کے سینئر کیمرہ مین ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس وقت کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ڈان نے انہیں لائف جیکٹس فراہم کی تھیں۔ تاہم، ان کی موجودہ آرگنائزیشن، 24 نیوز میں، حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔

شاکر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد “زندگی کے کھونے کا خوف” مستقل ہو گیا ہے۔

انہوں نے نوجوان صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ خبروں کی رپورٹنگ اور کوریج کے دوران یہ یاد رکھیں کہ انہیں خبر کی رپورٹنگ کرنی ہے خود خبر نہیں بننا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر والوں  کے بارے میں سوچیں اور تمام بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہا کہ جب ان کی امپلائر آرگنائزیشن نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو وہ دلبرداشتہ ہوگئے تھے، انہوں نے کہا کہ نہ ان کے طبی اور نہ ہی دیگر اخراجات پورے کئے گئے۔

تحریک طالبان پاکستان کے خودکش ونگ کے قاری حسین نے کہا تھا کہ یہ حملے طالبان کے خودکش بمباروں نے کیے ہیں تاہم، لشکر جھنگوی نے بھی حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ 22 سالہ خودکش بمبار راشد معاویہ نے یہ حملہ کیا ہے۔

اس کے بعد بلوچستان کے ہوم سیکرٹری اکبر حسین درانی نے بتایا کہ جلوس کے منتظمین کو خطرے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عہدیداروں نے بتایا کہ ڈیوائس میں 15 کلوگرام دھماکہ خیز مواد بھرا گیا تھا۔ دھماکے کے اثر سے متعدد دکانوں اور عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں تھیں، مشتعل ہجوم نے متعدد گاڑیوں کو آگ لگانے اور کچھ دکانوں میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد تمام خریداری کے مراکز اور کاروباری اداروں کو بند کروادیا تھا۔

دی ایکسپریس ٹربیون کے مطابق پولیس نے 20 مشتبہ افراد کو تحویل میں لیا تھا اور پھر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے حملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی ٹریبونل تشکیل دیا تھا۔

سٹی تھانے کے محرر شبیر نے پی پی ایف کو بتایا کہ لشکر جھنگوی اس حملے کا ذمہ دار ہے لیکن عسکریت پسند گروہ سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے احتجاجی ریلی کے منتظمین کو گرفتار کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمہ بند کر کے ان سب کی ضمانت منظور کر لی تھی۔

Translation

 


Comments are closed.