پاکستان پریس فاؤنڈیشن صحافی محمود خان اور شہزاد خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے خبر کا احاطہ کرنے کے لیے خود کو فرنٹ لائن پر رکھا اور مہلک دھماکے میں اپنی جانیں گنوادیں | Pakistan Press Foundation (PPF)

Pakistan Press Foundation

پاکستان پریس فاؤنڈیشن صحافی محمود خان اور شہزاد خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے خبر کا احاطہ کرنے کے لیے خود کو فرنٹ لائن پر رکھا اور مہلک دھماکے میں اپنی جانیں گنوادیں

 اَگست 8 ، 2016ء کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 73 افراد ہلاک ہوئے، مرنے والوں میں دو صحافی بھی شامل تھے۔ دھماکے میں سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

پرووینشل سنڈیمن ہسپتال،جسے سول ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے،  کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر وکلاء کی ایک بڑی تعداد جمع تھی، جہاں بلوچستان بار ایسوسی ایشن (بی بی اے) کے صدر بلال انور کاسی کے قتل کے بعد ان کی لاش لائی گئی تھی۔

اس دھماکے میں دنیا نیوز کے رپورٹر فریداللہ اور 92 نیوز کے کیمرہ مین  محمد فتح زخمی ہو ئےتھے ۔

اس اندوہناک واقعے کی پانچویں برسی کے موقع پر، پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) حملے میں جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ایک خبر کا احاطہ کرنے کے لیے خود کو فرنٹ لائن پر رکھنے والے، شہزاد اور محمود مہلک دھماکے میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔

دھماکے کی تصدیق خودکش دھماکے کے طور پر کی گئی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک علیحدہ ہوجانے والے گروپ، جماعت الاحرار (جے یو اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پی پی ایف سے بات کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ یہ کیس ابتدائی طور پر کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ پولیس نے خودکش حملہ آور کے گھر اور اس حملے میں ملوث دیگر چار افراد کا، جو پولیس آپریشن میں مارے گئے تھے، سراغ لگا لیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیس ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

ذوالفقار نے کہا ، “ہم نہ صرف ان صحافیوں کے لیے جو دھماکوں جیسے واقعات میں مارے جاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی جو ٹارگٹڈ حملوں میں مارے جاتے ہیں، انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

تھانہ سول لائنز کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شہباز نے بتایا کہ اس کیس کے حوالے سے ایک اجتماعی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔ کیس بدستور زیر تفتیش ہے اور ابھی تک کوئی بھی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے۔

شہزاد کو یاد کرتے ہوئے آج ٹی وی کوئٹہ کے بیورو چیف مجیب احمد نے کہا کہ شہزاد کوئٹہ کے ان چند کیمرہ مینوں میں شامل تھے جو “انتہائی پرجوش اور ذمہ دار” تھے۔

“وہ اپنے کام سے مخلص تھا اور اپنے فرض سے وفادار تھا۔”

آج ٹی وی نے شہزاد کے خاندان کو معاوضے کے طور پر 25 لاکھ روپے کی ادائیگی کی اور پانچ سال کی مدت کے لیے اس کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری لی۔ پی پی ایف سے بات کرتے ہوئے شہزاد کے بھائی بالاج خان نے کہا کہ چینل اب بھی شہزاد کی تنخواہ اس کی بیوی کو ادا کر رہا ہے تاکہ اس کی امداد ہو سکے کیونکہ مقتول صحافی خاندان کا واحد کفیل تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے بھی اس کے خاندان کو 10 لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کیا تھا۔

دھماکے میں جاں بحق  ہونے والے دوسرے صحافی محمود کو یاد کرتے ہوئے ڈان نیوز ٹی وی سابق بیورو چیف علی شاہ نے کہا کہ محمود انتہائی توجہ سے کام کرتا تھا۔ انہیں ایک سیکورٹی گارڈ کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا جو ایک نان لائنر ایڈیٹر (این ایل ای) کے طور پر تربیت یافتہ تھے اور ایک نجی چینل میں بطور کیمرہ مین خدمات انجام دیتے رہے تھے۔

“وہ بہت پرعزم اور اپنے کام سے مخلص تھے، ٹیم انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی،” شاہ نے کہا۔


Comments are closed.