قتل کے بعد معافی کا مقدمہ — پی پی ایف صحافی ساجد تنولی کو یاد کررہی ہے | Pakistan Press Foundation (PPF)

Pakistan Press Foundation

قتل کے بعد معافی کا مقدمہ — پی پی ایف صحافی ساجد تنولی کو یاد کررہی ہے

Pakistan Press Foundation

پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) اردو کے ایک علاقائی روزنامے شمال کے صحافی ساجد تنولی کو یاد کر رہی ہے جنہیں 2004 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں مانسہرہ کے میئر خالد جاوید نے قتل کر دیا تھا۔

تنولی کا قتل اور متاثرہ خاندان کی جانب سے قاتل کو بالآخر معاف کرنا ایک عام رجحان ہے جو پاکستان میں دیکھا گیا ہے جہاں مقتول صحافیوں کے اہل خانہ کو مقدمات نمٹانے کے لئے خون بہا کی رقم کی پیشکش ہوتی ہے اور اکثر ان پر قاتل کو معافی دینے کے لئے انتہائی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں میڈیا کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو مستقل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔

29 جنوری 2004 کو تنولی کو ہائی وے پر روکا گیا، انہیں گاڑی سے گھسیٹا گیا اور متعدد گولیاں ماری گئیں۔اطلاعات کے مطابق انہیں چار گولیاں لگیں جن میں سے دو ان کے سر پر، ایک ان کی گردن پر اور ایک ان کے سینے پر لگی۔

اطلاعات کے مطابق تنولی نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جاوید شراب کا کاروبار کر رہا ہے۔اگلے دن جاوید نے تنولی کے خلاف بدنامی کا مقدمہ دائر کیا تھا اور تحریری معافی کا مطالبہ کیا تھا۔

پولیس نے موقع سے فرار ہونے والے جاوید کے خلاف قتل کے الزامات درج کیے تھے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس کے بھائی اور بیٹے کو بھی گرفتار کیا جن پر قتل میں ساتھی ہونے کا شبہ تھا۔

پولیس کے مطابق جاوید کو 2005 میں گرفتار کیا گیا تھا۔تاہم دونوں فریقوں کی آپسی مفاہمت کے بعد عدالت سے مقدمہ واپس لے لیا تھا۔

2006میں تنولی کے اہل خانہ نے ملزم کو معاف کر دیاتھا۔

 تنولی کے بھائی علی اصغر تنولی کے مطابق جاوید نے موت کے معاوضے کے طور پر اہل خانہ کو 2.5 ملین روپے ادا کیے تھے۔

انہوں نے پی پی ایف کو بتایا کہ ہم نے خالد (جاوید) کے ساتھ معاملہ حل کیا کیونکہ ہمارا عدالتی نظام سست ہے، خالد ضمانت پر تھا اور وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔

مانسہرہ پریس کلب کے صدر وسیم سرور نے تنولی کو ایک پرجوش صحافی کے طور پر یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں  نے علاقے کی صورتحال کے بارے میں بغیر کسی خوف کے لکھا اور اسی وجہ سے قتل کردئیے گئے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب قاتل معلوم تھا تب بھی ہمارے عدالتی نظام نے ساجد کو انصاف فراہم نہیں کیا۔

شمال کے ایڈیٹر حنیف ایوان نے کہا کہ تنولی کو صحافت سے محبت تھی اور وہ “بہت محب وطن اور محنتی صحافی” تھے۔ایوان نے کہا کہ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کی وجہ سے قتل کئیے گئے۔


Comments are closed.