اکتوبر 3، 2003 کو امیر بخش بروہی کو مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ بروہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق خبریں لکھا کرتے تھے اور اپنے کام کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے | Pakistan Press Foundation (PPF)

Pakistan Press Foundation

اکتوبر 3، 2003 کو امیر بخش بروہی کو مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ بروہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق خبریں لکھا کرتے تھے اور اپنے کام کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے

 اکتوبر 2003 کو سندھی زبان کے ایک اخبار روزنامہ کاوش اور کاوش ٹیلی ویژن نیوز کے رپورٹر امیر بخش بروہی کو صوبہ سندھ کے شہر شکار پور میں دو نامعلوم مسلح افراد نے مقامی پولیس اسٹیشن کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا ۔ انہیں پانچ گولیاں لگیں اور پولیس نے  انہیں فوراً شکار پور سول اسپتال پہنچایا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

جیکب آباد شہر کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ان کا مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجود، 2015 میں ان اہل خانہ نے مالی معاوضے کے بدلے ملزمان کو معاف کر دیا تھا۔ بروہی کا مقدمہ روایتی جرگہ سسٹم کے ذریعے حل کیا گیا جہاں قبائلی عمائدین قتل جیسے مقدمات نپٹاتے  ہیں۔ یہ صورتحال مشتبہ قاتلوں کی مالی اور سیاسی طاقت کی عکاسی کرتی ہے، جو احتساب سے بچنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔  یہ صورت مقتول صحافیوں کو انصاف دلانے میں ناکامی کا باعث بنتی ہے۔

مالی معاوضہ صحافیوں کے مشتبہ قاتلوں کو سزا دلانا زیادہ مشکل بنا دیتا ہے۔ پی پی ایف نے کم از کم چار ایسے مقدمات ضبط تحریر  کیے ہیں جہاں میڈیا سے متعلقہ قتل کے مقدمات اس وقت ختم کردیے گئے جب مقتولین کے اہل خانہ نے قتل کی معاوضے کی رقم کے بدلے قاتلوں کو معاف کردیا ۔

معاوضے کی رقم کے ذریعے حل کیے جانے والے معاملات میں ایک مشترکہ پہلو متاثرین کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالنے کی طاقت رہی ہے۔ پاکستان میں بیشتر میڈیا کارکنوں کے پاس مالی یا سماجی طاقت نہیں کہ وہ ان بااثر لوگوں کے خلاف کھڑے ہو سکیں جنہوں نے ان کے عزیزوں کو قتل یا مجروح کیا ہو۔

مالی دباؤ نے بہت سی فیملیوں کو سمجھوتے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بہت سے معاملات میں یہ راستہ اختیار کرنا محض سست اور ناکارہ نظام انصاف کی وجہ سے ضروری ہوا، جبکہ مقدمات کے فوری حل کے لیے اہل خانہ کی جدو جہد رائیگاں چلی گئی۔  مالی معاوضہ معاملات کو تو جلد نپٹاسکتا  ہے، لیکن سمجھوتے کی قیمت انصاف کا سقوط ہو سکتی ہے۔

پی پی ایف کا خیال ہے کہ میڈیا کارکنان کے قتل کو ریاست کے خلاف جرم سمجھا جانا چاہیے اور اس طرح اہل خانہ یا مقامی عمائدین کی طرف سے معاملات طے کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ صحافیوں اور میڈیا کے دیگر کارکنوں پر حملہ اور ان کا قتل، ذاتی دشمنی کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ طاقت اور اثر و رسوخ  رکھنے والے اپنے مفاد کو نقصان پہنچانے والی معلومات کو میڈیا کے ذریعے سامعین کے وسیع تر حلقے تک پہنچنے سے روکنا چاہتے ہیں۔

شکارپور پریس کلب کے صدر سوڈھو جیمز نے پی پی ایف کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ قتل حساس مقامی مسائل پر بروہی کی رپورٹنگ کی وجہ سے ہوا جو ان ہی کی ذات کے وڈیروں کے ممکنہ غصہ کی وجہ بنی  ہو۔ انہوں نے کہا کہ مقتول صحافی شکارپور میں پولیس اور زمین داروں کے کارندوں کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں لکھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے پورے صوبے میں مظاہرے کیےاور ہلاکت  کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جیمز نے مزید کہا کہ اہل خانہ نے بروہی کی فیملی کی بھرپور معاونت کی تھی لیکن ان کی فیملی نے مالی معاوضے کے ذریعے معاملہ ختم کردیا تھا۔

روزنامہ کاوش کے ایڈیٹر محمد نیاز نے کہا کہ مقامی زمیندار بروہی سے “ناراض اور بدگمان” تھے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ مبینہ قاتل، شاہنواز بروہی ، ذوالفقار وحید اور غلام نبی، علاقے کے بااثر لوگ تھے اور مختلف جرائم میں ملوث تھے۔

نیاز کاکہنا تھا کہ ، مبینہ قاتل ان سے بدگمان تھے کیونکہ علاقے کے مقامی باشندوں نے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ  ہونے کے بعد بروہی سے اپنے معاملات پر مشورے کرنا شروع کردیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بروہی کی فیملی نے ان (ڈیلی کاوش) سے مشورہ کیے بغیر معاملہ ختم کردیا۔

تاہم، کیس 12 سال تک عدالت میں رہا، انہوں نے مزید کہا کہ پبلیکیشن کی انتظامیہ نے بروہی کی فیملی کو تمام قانونی اور مالی معاملات میں مکمل تعاون فراہم کیا ہے۔ بروہی اپنے اہل خانہ ، ان کی والدہ  اور بہن،  کا واحد کفیل تھا۔

Translation  

 


Comments are closed.